محمد بن عبد الله بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب، نفس الزکیہ عباسی دور کے ایک فاطمی سادات کے امام تھے۔ جنھوں نے المنصور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔[2] تحریک عباسی کے دوران میں عباسیوں۔ فاطمیوں اورعلویوں نے مل جل کر کام کیا۔ فاطمیوں کو یقین تھا کہ کامیابی کے بعد خلافت ان کے سپرد کر دی جائے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور عباسیوں نے کامیابی کے بعد اپنی خلافت کا اعلان کر کے سفاح کو پہلا خلیفہ نامزد کر دیا۔ اس پر فاطمیوں کو بڑی مایوسی ہوئی۔[3] اس وقت فاطمی سادات میں سے دو شخصیات نہایت اہم تھیں۔ اولاً حضرت امام جعفر صادق جو حضرت امام حسین کی اولاد میں سے چھٹے امام تھے اور اپنے زہد و اتقاء اور روحانی کمالات کی بدولت عوام میں بہت مقبول تھے وہ بڑے درویش صفت انسان تھے۔[4] انھوں نے خلافت کی کبھی تمنا نہیں کی تھی اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس سے منع کرتے رہتے تھے۔ لیکن دوسری شخصیت امام محمد نفس الزکیہ کی تھی جو حضرت حسن کی چوتھی پشت میں سے تھے ۔[5] وہ اپنی پاکبازی اور پرہیزگاری کی بدولت عوام میں بڑی قدرومنزلت اور مقبولیت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ امام جعفر صادق کی خاموشی کے مقابلہ میں وہ خلافت کے لیے پرجوش تھے اور ابوجعفر منصور ان کی شخصیت اور عزائم کی بنا پر ان سے سخت خائف تھا اور انھیں اپنا مدمقابل سمجھتا تھا۔[6]
اہل مدینہ کی بیعت
بنو امیہ کے خلافت کے آخری ایام میں جب عباسی دعوت کی کامیابی کے امکانات روشن نظر آنے لگے تو مدینہ منورہ میںبنو ہاشم کے سرکردہ لوگوں کاایک اجتماع ہوا تھا جس میں السفاح اورابوجعفر منصور دونوں شامل تھے۔[7] یہ اصول تسلیم کر لیا گیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں امام محمد نفس الزکیہ خلیفہ ہوں گے اس موقع پر اہل مدینہ کے صائب الرائے لوگوں نے بھی اس بات کی تائید کر دی تھی۔ لیکن جونہی عباسی بامراد ہوئے انھوں نے اس فیصلے کو پس پشت ڈال کر عبد اللہ السفاح کو منصب خلافت پر فائز کر دیا۔ لہذا امام محمد نفس الزکیہ نے السفاح کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ اہل مدینہ نے اپنے پرانے موقف پر قائم رہتے ہوئے امام محمد کی بیعت کرکے ان کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ سفاح نے اس موقع پر حکمت عملی سے کام لیا اور امام محمد نفس الزکیہ پر اپنے احسانات جتا کر انھیں اپنے ارادے باز رکھنے کی درخواست کی چنانچہ امام محمد نے سفاح کے عہد تک اس معاملہ میں خروج سے گریز کیا۔[8]
