ماہانہ محفوظات: نومبر 2025

کفارہ، بلندی درجات، نجات اور ہلاکت کے تین تین اعمال

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ثَلَاثٌ کَفَّارَاتٌ ، وَثَلَاثٌ دَرَجَاتٌ ، وَثَلَاثٌ مُنْجِیَاتٌ ، وَثَلَاثٌ مُہْلِکَاتٌ ))
“تین چیزیں گناہوں کا کفارہ ہیں، تین چیزیں درجات میں بلندی کا ذریعہ ہیں، تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔”

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وضاحت فرمائی:

❶ الکفّارات

(( فَأَمَّا الْکَفَّارَاتُ : فَإِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ فِی السَّبَرَاتِ ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ ، وَنَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ ))
“گناہوں کا کفارہ بننے والے امور یہ ہیں:
➊ شدید سردی میں مکمل وضو کرنا
➋ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا
➌ جماعت کے ساتھ نماز کے لیے قدم اٹھانا”

❷ الدرجات

(( وَأَمَّا الدَّرَجَاتُ فَإِطْعَامُ الطَّعَامِ ، وَإِفْشَاءُ السَّلَامِ ، وَالصَّلَاۃُ بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ))
“اور درجات بلند کرنے والے اعمال یہ ہیں:
➊ کھانا کھلانا
➋ سلام کو عام کرنا
➌ رات کے وقت نماز پڑھنا جبکہ لوگ سو رہے ہوں”

❸ المنجیات

(( وَأَمَّا الْمُنْجِیَاتُ فَالْعَدْلُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا، وَالْقَصْدُ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنَی، وَخَشْیَۃُ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ ))
“نجات دینے والے اعمال یہ ہیں:
➊ غصے اور رضامندی دونوں حالتوں میں عدل کرنا
➋ فقر اور غنا دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا
➌ خلوت و جلوت ہر حال میں اللہ سے ڈرنا”

❹ المہلکات

(( وَأَمَّا الْمُہْلِکَاتُ فَشُحٌّ مُطَاعٌ ، وَہَوًی مُتَّبَعٌ ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِہ ))
“اور ہلاکت کا سبب بننے والے اعمال یہ ہیں:
➊ وہ لالچ جس کی اطاعت کی جائے
➋ وہ خواہش جس کی پیروی کی جائے
➌ انسان کا اپنی ذات پر فریفتہ ہونا (خود پسندی)”

رواہ البزار، وقال الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب: 453 حسن لغیرہ

نظر بد کا روحانی علاج/ چشم بد دور

تین مرتبہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط

پڑھ کر سات مرتبہ یہ دعا:

اَللّٰهُمَّ اَذْهِبْ حَرَّهَا وَبَرْدَهَا وَوَصَبَهَا

پڑھ کرجس کو نظر ہو اس پر دَم کیجئے، اِنْ شَآءَ اللہُ الکریم نظر اُتر جائے گی۔

گم شدہ چیز پانے کے لیے وظیفہ

  •  تنہائی میں دو رکعات صلاۃ الحاجت کی نیت سے پڑھیں
  • بعد ازاں سات مرتبہ درود شریف  پڑھیں
  • پھر سورۃ لقمان کی یہ آیت ۱۱۹ مرتبہ پڑھیں

﴿ يابُنَيَّ إِنَّهَآ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ﴾

ترجمہ: یٹا اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر ہو پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا وہ آسمان کے اندر ہو یا زمین کے اندر ہو تب بھی اللہ اس کو حاضر کر دے گا، بے شک اللہ بڑا باریک بین باخبر ہے۔

  • پھر ( یا حفیظ )  119 مرتبہ
  • اُس کے بعد  درود شریف سات مرتبہ پڑھ کر
  • دعا کریں، ان شاء اللہ آپ کی گم شدہ چیز  جلد مل جائے گی۔

رزق میں اضافہ کے لیے

فجر کی نماز ۔۔۔ سنت اور فرض کے درمیان
  • ۳۳ بار۔ ”سبحان اللہ وبحمدہ“
  • ۳۳ بار۔ ”سبحان اللہ العظیم“
  • ۳۴ بار۔”استغفراللہ“
  • اور ایک سو بار۔”یارزاق“
پڑھنے سے اللہ  کریم رزق میں اضافہ اور کشادگی عطا فرماتے ہیں۔ یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کریں نیت اللہ کی خوشنودی اور رضا مندی کی ہو۔ اللہ پر کامل ایمان اور بھروسہ ہونا چاہیئے اللہ کریم ہم سب کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے۔ آمین

عبد اللہ بن حسن بن علی ابن ابی طالب

عبد اللہ بن حسن (شہادت سنہ 61 ھ)، امام حسن مجتبی علیہ السلام کے ان فرزندوں میں سے ہیں جو واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔ روز عاشورا جب امام حسین علیہ السلام میدان جنگ میں تھے تو عبد اللہ نے خود کو مقتل میں پہچا دیا۔ روایت کے مطابق جب ابحر بن کعب نے امام حسین (ع) پر تلوار سے وار کیا تو عبد اللہ نے اپنے چچا کو بچانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ تلوار کے وار سے عبد اللہ کا ہاتھ کٹ کر لٹک گیا اور وہ امام کی آغوش میں گر گئے اور حرملہ بن کاہل اسدی نے انہیں اپنے تیر کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

پڑھنا جاری رکھیں

محمد بن عبد الله بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب نفس الزکیہ

محمد بن عبد الله بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب، نفس الزکیہ  عباسی دور کے ایک فاطمی سادات کے امام تھے۔ جنھوں نے المنصور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔[2] تحریک عباسی کے دوران میں عباسیوں۔ فاطمیوں اورعلویوں نے مل جل کر کام کیا۔ فاطمیوں کو یقین تھا کہ کامیابی کے بعد خلافت ان کے سپرد کر دی جائے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور عباسیوں نے کامیابی کے بعد اپنی خلافت کا اعلان کر کے سفاح کو پہلا خلیفہ نامزد کر دیا۔ اس پر فاطمیوں کو بڑی مایوسی ہوئی۔[3] اس وقت فاطمی سادات میں سے دو شخصیات نہایت اہم تھیں۔ اولاً حضرت امام جعفر صادق جو حضرت امام حسین کی اولاد میں سے چھٹے امام تھے اور اپنے زہد و اتقاء اور روحانی کمالات کی بدولت عوام میں بہت مقبول تھے وہ بڑے درویش صفت انسان تھے۔[4] انھوں نے خلافت کی کبھی تمنا نہیں کی تھی اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس سے منع کرتے رہتے تھے۔ لیکن دوسری شخصیت امام محمد نفس الزکیہ کی تھی جو حضرت حسن کی چوتھی پشت میں سے تھے ۔[5] وہ اپنی پاکبازی اور پرہیزگاری کی بدولت عوام میں بڑی قدرومنزلت اور مقبولیت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ امام جعفر صادق کی خاموشی کے مقابلہ میں وہ خلافت کے لیے پرجوش تھے اور ابوجعفر منصور ان کی شخصیت اور عزائم کی بنا پر ان سے سخت خائف تھا اور انھیں اپنا مدمقابل سمجھتا تھا۔[6]

اہل مدینہ کی بیعت

بنو امیہ کے خلافت کے آخری ایام میں جب عباسی دعوت کی کامیابی کے امکانات روشن نظر آنے لگے تو مدینہ منورہ میںبنو ہاشم کے سرکردہ لوگوں کاایک اجتماع ہوا تھا جس میں السفاح اورابوجعفر منصور دونوں شامل تھے۔[7] یہ اصول تسلیم کر لیا گیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں امام محمد نفس الزکیہ خلیفہ ہوں گے اس موقع پر اہل مدینہ کے صائب الرائے لوگوں نے بھی اس بات کی تائید کر دی تھی۔ لیکن جونہی عباسی بامراد ہوئے انھوں نے اس فیصلے کو پس پشت ڈال کر عبد اللہ السفاح کو منصب خلافت پر فائز کر دیا۔ لہذا امام محمد نفس الزکیہ نے السفاح کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ اہل مدینہ نے اپنے پرانے موقف پر قائم رہتے ہوئے امام محمد کی بیعت کرکے ان کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ سفاح نے اس موقع پر حکمت عملی سے کام لیا اور امام محمد نفس الزکیہ پر اپنے احسانات جتا کر انھیں اپنے ارادے باز رکھنے کی درخواست کی چنانچہ امام محمد نے سفاح کے عہد تک اس معاملہ میں خروج سے گریز کیا۔[8]

پڑھنا جاری رکھیں