خواجہ سید محمد سلیمان گیلانی قادری چشتی نظامی

خواجہ سید محمدسلیمان شاہ گیلانی چشتی نظامی قادری سلسلہ چشتیہ قادریہ کے معروف بزرگان میں شمار ہوتے ہیں۔

تعارف

سید سلیمان شاہ گیلانی یکم اگست 1919ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے بزرگ بغداد شریف سے ہجرت کر کے پہلے افغانستان اور پھر کوئٹہ ( بلوچستان) کے علاوہ صوبہ سرحد کے علاقوں رسالپور، چکنی اور آدم زئی ( نوشہرہ) میں آباد ہو گئے۔ لیکن بیسویں صدی میں کوئٹہ کے مشہور زلزلہ کے بعد آپ کے والد گرامی سید محمد رحیم شاہ ایک میں مقیم ہو گئے اور محکمہ تعلیم میں ملازمت کا آغاز کیا اور خاصے عرصہ تک گورنمنٹ پائلٹ اسکول میں بطور مدرس خدمات انجام دیتے رہے۔[1]

سلسلۂ نسب

خواجہ سید محمد سلیمان گیلانی کا سلسلۂ نسب سترہ واستوں سے حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے ملتا ہے۔ سید محمد سلیمان شاہ بن سید محمد رحیم بن سید محمد فقیر حسین بن سید فضل الدین بن سید شاہ محمد بن سید محمد بن سید عبد الوہاب بن سید محمد در دیش بن سید حسام الدین بن سید نور الدین بن سید ولی الدین بن سید زین الدین بن سید شرف الدین بن سید شمس الدین بن سید سراج الدین محمد الھتاک بن سید محمد شمس الدین ابو بکر عبد العزیز بن سید عبد القادر جیلانیؒ۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید محمد رحیم شاہ کی زیر نگرانی حاصل کی جو مسلم اسکول باغبان پور لاہور کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ انھوں نے چار انگریزی ناولوں کا اردومیں ترجمہ کیا۔جو دست برد زمانہ کی نظر ہو گئے [2] مڈل کرنے کے بعد سید محمد سلیمان گیلانی کی شادی ہو گئی لیکن آپ نے تعلیم جاری رکھی۔ حصول معاش کے لیے آرٹلری سنٹر اٹک میں بطور پینٹر ملازمت کے ساتھ ساتھ میٹرک، منشی فاضل اور مولوی وغیرہ کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔

ملازمت اور فنی خدمات

آپ نے سرکاری ملازمت کے علاوہ ایک مشہور مصور و خطاط استاد غلام سرور کے ساتھ مل کر ممتاز آرٹ سٹوڈیو قائم بھی کیا۔ آپ کو اسلامی خطاطی کی جملہ اصناف پر کامل دسترس ہونے کے ساتھ ساتھ فن مصوری اور آئینہ سازی پر بھی مکمل عبور تھا۔[1][3]

روحانی سفر اور بیعت

آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ قادریہ کے مشہور روحانی رہنماخواجہ فقیر فضل داد بہرام رنیال کے دست گرفتہ تھے۔اور انہی کی اجازت خلافت سے رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ ملتان، لودھراں، ہری پور ہزارہ اور پشاور میں ان کے مرید بکثرت موجود ہیں۔

مجاہدات و ریاضات

بیعت کے بعداپنے پیرو مرشد کے حکم سے صوبڑہ کے قریب ضلع ہزارہ کے مشہور سلسلہ کوہ گندگر کے ایک پہاڑ پر چلہ کش ہوئے۔ یہاں آپ دس ماہ تک ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے۔بعد ازاں مرشد نے انھیں خرقہ خلافت اور سلسلہ کے نشانات عطا فرمائے[4]

خلافت و اشاعت دین

دس ماہ کی شدید ریاضت کے بعد آپ کے مرشدنے آپ کی خلافت کا باقاعدہ اعلان فرمایا، خرقہ خلافت، کالی چادر اور مرقع عطا فرمایا۔ اجازت و خلافت کے بعد آپ کو صوبڑہ کے قریب ہی اشاعت دین کا حکم دیا۔ جس علاقہ میں آپ نے رشد و ہدایت کا آغاز کیااس کا نام درویش آباد رکھا۔

ازدواجی زندگی اور اولاد

آپ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی زوجہ کے بطن سے فرزندگان:

سید ممتاز حسین گیلانی، سید عارف حسین گیلانی، سید ابرار حسین شاکر القادری چشتی، سید اعجاز حسین گیلانی۔ ایک فرزند سید نور الحسن گیلانی صغر سنی میں وفات پا گئے۔

دوسری زوجہ محترمہ سے فرزندان:

سید حسنین القادری، سید محمد قاسم اور سید انوار احسن تولد ہوئے۔

درویش آباد (صوبڑہ و لودھراں)

آپ آٹھ سال صوبڑہ میں مقیم رہے۔ تربیلا ڈیم اسکیم کے آغاز پر لوگ متبادل مقامات پر بھیجے گئے تو آپ ضلع لودھراں کے قصبہ جلہ ارائیں کے قریب منتقل ہوئے اور وہاں بھی “درویش آباد” کے نام سے بستی قائم کی۔ وہاں آپ نے دس بارہ سال تک تبلیغ و ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا۔

فیصل آباد میں قیام اور خدمات

آخری عمر میں فیصل آباد تشریف لے گئے اور وہاں مسند ارشاد آراستہ کی۔ کچھ عرصہ تک سمن آباد کی مرکزی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیے۔ وہیں واصل بحق ہوئے لیکن اپنی وصیت کے مطابق ناڑہ شریف میں سپرد خاک کیے گئے۔

علمی مقام و فیوض

آپ نہایت عالم فاضل اور عابد و زاہد تھے۔ اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پشتو اور پنجابی پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ حافظ قرآن تھے۔ آپ کی مجالس میں عوام کے علاوہ علما و مشائخ بھی حاضر ہوتے۔ آپ کے مریدین میں اکثریت حفاظ و علما کی ہے۔

مکتوبات و علمی آثار

خواجہ سید سلیمان گیلانی کے علمی آثار میں وہ مکتوبات ہیں جو آپ نے اپنے برادر بزرگ سید محمد عبد الرشید، اپنے فرزند سید شاکر القادری چشتی نظامی، سید محرم شاہ درویش اور دیگر مریدین کے نام لکھے۔ یہ مکتوبات ابھی اشاعت پزیر نہیں ہو سکے، ان کی ترتیب و تدوین سید شاکر القادری چشتی نظامی کر رہے ہیں۔

خلفاء و جانشین

آپ کے بعد آپ کے فرزند سید شاکر القادری چشتی نظامی جانشین ہوئے جن کی دستار بندی پیر طریقت صاحبزادہ طارق مسعود چشتی نے کی۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے سید محمد حسنین گیلانی القادری کو دیوان سید آل مجتبیٰ علی خان سجادہ نشین خواجہ غریب نواز اجمیر نے اجازت و دستار عطا فرمائی۔

زبان و ادب سے شغف

آپ کو شعر و سخن سے بھی ذوق تھا لیکن باقاعدہ شاعر نہیں تھے۔ آپ کے فرزند سید شاکر القادری اردو اور فارسی میں نعت و غزل کہتے ہیں اور تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔

وفات

خواجہ سید محمد سلیمان گیلانی کی تاریخ وفات 26 اپریل 1986ء بمطابق 15 شعبان المعظم 1406ھ ہے۔ آپ کو ناڑہ شریف میں سپرد خاک کیا گیا۔[1]

قطعات تاریخِ وصال

ملک کے نامور نعت گو شاعر طارق سلطانپوری نے ”چراغ بزم کمال نبی“ ﷺ کے مادہ سے آپ کی تاریخ وصال نکالی ہے جو 1406ھ بنتی ہے۔

قطعہ تاریخ وصال:

قابل تعظیم فرد خاندان مصطفیٰ

عمر بھر حب محمد ﷺ درس اس نے دیا

فکر کی میں نے تو لطف حق سے یوں موزوں ہوا

اس کا سال وصل طارق “افتخار و اوج حق”1406ھ

قطعہ طارق سلطان پوری

جو روشن ہے باد مخالف میں بھی

وہ ہے عترت مصطفیٰ کا چراغ

جسے کر سکی گل نہ آندھی کوئی

وہ ہے آل مشکل کشا کا چراغ

ہو طوفاں سراسر زمانہ اگر

بجھے گا نہ اہل صفا کا چراغ

تھے سید محمد سلیمان بھی

سر بزم دوراں ہدا کا چراغ

وہ فرزند حیدر وہ پور بتول

جمال حبیب خدا کا چراغ

کہا میں نے اس مرد حق کیش کا

سن وصل” اوج صفا کا چراغ“1406ھ[1]

حوالہ جات

  1. ا ب پ ت سید ابرار حسین شاکرالقادری (۲۰۰۲ء)۔ چشمۂ فیض (شجرۂ طیبہ منسلک بہ سلسلہ عالیہ چشتیہ) (اول ایڈیشن)۔ اٹک، پاکستان: ن والقلم ادارۂ مطبوعات، اتک ، پاکستان۔ ص ۱۰۰
  2.  محمد قاسم سید (2018ء)۔ پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء۔ کراچی، پاکستان: رنگ ادب پبلی کیشنز،کراچی۔ ص 342
  3.  ڈاکٹر شہزاد احمد (2017ء)۔ ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا(تزکرہ و انتخاب)۔ کراچی ، پاکستان: رنگ ادب پبلیکیشنز ، کراچی، پاکستان۔ ص 407۔ ISBN:9789697665105
  4.  عبدالعزیز ساحر (1998)۔ “مشائخ اٹک”۔ مجلہ اٹک فیسٹیول۔ ضلع کونسل اٹک

تبصرہ لکھیں

ضروری فیلڈز * سے نشان زد ہیں