جب باواجی حضورؒ نے انسانیت کی لاج رکھی
(ایک سچا واقعہ، 1947ء کے شور و ہنگامے میں روشنی کی ایک کرن)
1947ء کا وہ ہنگامہ خیز زمانہ جب برصغیر کی زمین خون اور آنسوؤں سے تر ہو رہی تھی، جب مذہب، نسل اور انتقام کے نام پر انسان انسان کا دشمن بن چکا تھا — اُس تاریک عہد میں چند روشن دل ہستیاں ایسی بھی تھیں جنہوں نے انسانیت کی لو بجھنے نہیں دی۔ اُن میں سے ایک نام حضرت باواجی بہرام رنیالؒ کا ہے، جنہوں نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ ولایت صرف خانقاہوں تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ میدانِ عمل میں بھی اپنی سچائی منواتی ہے۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد جب بھارت سے لٹے پٹے قافلے سرحد پار کر رہے تھے، ہمارے گاؤں میں بھی خوف اور لالچ کی ملی جلی فضاء چھائی ہوئی تھی۔ مقامی ہندو برادری — جو صدیوں سے یہاں آباد تھی — ایک دم خوف زدہ ہو گئی۔ کچھ جوشیلے نوجوانوں کے دلوں میں مال و دولت پر قبضے کی ہوس بھی جاگی۔ اس وقت باواجی حضورؒ نے وہ تاریخی جملہ فرمایا جو آج بھی صداقت کا مینار ہے:
“جو ہمارے پاس پناہ لینے آئے، وہ امان میں ہے؛ بے قصور پر ہاتھ اٹھانا شریعت کے خلاف ہے۔”
یہ ایک فقیر کی نہیں، ایک صاحبِ نظر ولی کی آواز تھی۔
آپ کے حکم نے پورے گاؤں کے لہو کو ٹھنڈا کر دیا۔ ہندو مردوں کو حجرے میں اور عورتوں کو اپنے گھر میں پناہ دی گئی۔ جب افواہ پھیلی کہ حملہ آور شمال کی پہاڑیوں سے آ رہے ہیں تو پورا گاؤں ہتھیار سنبھال کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن باواجی حضورؒ نے فرمایا:
“ہمارا ہتھیار انصاف ہے، ہماری تلوار امانت ہے۔ پہلے حقیقت معلوم کرو، پھر فیصلہ کرو۔”
افواہ جھوٹی نکلی — صرف چند جوگی جڑی بوٹیاں چن رہے تھے۔
مگر خطرہ ختم نہ ہوا۔ دریائے سندھ کے اُس پار سے مسلح پٹھان برادری، امداد کے بہانے، لالچ میں آ گئی۔ انھوں نے کہا یا ہندوؤں کو لوٹنے دو یا ہم پورے گاؤں پر چڑھ دوڑیں گے۔ یہ ایک نازک لمحہ تھا۔ باواجی حضورؒ آگے بڑھے، سب کو پیچھے رکھا اور اکیلے پٹھانوں کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
آپ نے کہا:
“تم مہمان ہو، تمہارے خرچ کا بدل ہمارا فرض ہے۔ لیکن اگر تم نے اس بستی کی طرف بری نیت سے قدم بڑھایا تو تمہیں میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔”
یہ جملہ بجلی بن کر فضا میں گونج گیا۔
پٹھانوں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو باواجی حضورؒ کے پیچھے پورا گاؤں سر جھکائے کھڑا تھا۔ ایک بوڑھا پٹھان سردار، جو باواجی کے والد فقیر بابا فتح خانؒ کا پرانا دوست تھا، آگے بڑھا۔ اس نے خراج لینے سے انکار کیا اور کہا:
“ہم دشمن کے نہیں، دوست کے بیٹے کے سامنے ہیں۔ تمہارا گاؤں امان میں ہے۔”
یوں وہ چلے گئے — اور گاؤں میں خون کا ایک قطرہ نہ گرا۔
سارے ہندو اپنے مال و متاع سمیت فوجی قافلے کے ساتھ بحفاظت نکل گئے۔ صرف ایک بیوہ عورت، شاید کسی لالچی شخص کے ہاتھوں ماری گئی، ورنہ پورا گاؤں امن کی علامت بن گیا۔
یہ واقعہ آج اُس کتاب “جب کیمبل پور جل رہا تھا” کی سطروں کے بالمقابل ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
جہاں تاریخ کے صفحات پر انتقام اور نفرت کے دھبے ہیں، وہاں باواجی حضورؒ جیسے اولیاء کے کردار ان داغوں پر رحمت کی بوندیں ہیں۔ اُنھوں نے ثابت کیا کہ دین کا اصل جوہر محبت، عدل اور حفاظتِ انسانیت ہے۔
آج جب معاشرہ دوبارہ تعصب اور تقسیم کی راہوں پر گامزن ہے، ہمیں یہ واقعات یاد دلانے چاہئیں کہ اصل مجاہد وہ ہے جو ظلم کو روک دے، اور اصل ولی وہ جو دشمن کے جان و مال کو بھی اپنی امان میں سمجھ لے۔
یہ کہانی صرف ماضی کی یاد نہیں — یہ آج کے ضمیر کی پکار ہے۔